کیا کرونا وائرس لیبارٹری کی انسانی تخلیق ہے یا اللہ کی تخلیق ہے؟
کیا انسان کسی چیز کو تخلیق کرنے پر قادر ہے؟ اگر نہیں تو یہ کرونا وائرس کی انسانی بناوٹ کا شور کیسا ہے؟
ابداع (novelty) ، ابداء (commencement) ، خلق (creation) اور جعل (making) میں فرق :
جینیٹک انجیئرنگ کی کامیابی کی حدود اور کرونا وائرس کی
کیمیائی ساخت پر بحث :
یہود، امریکہ، چین، عالمی طاقتوں یا ایلومیناتی/فری میسن کی طرف سے سازشی تھیوری کی حقیقت پر غور:
قسط اول:
جب سے کرونا وائرس COVID-19 کی موجودہ پوری انسانیت کو دہلا دینے والی خوفناک وبا پھوٹی ہے تب سے اس وبا کے پھوٹنے کی وجوہات پر بحث و تمحیص کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے ۔ روزانہ ایک نئی تھیوری کے ساتھ لوگ جلوہ گر ہو رہے ہیں اور عوامی ذہن کو جا بجا الجھایا جا رہا ہے ۔ عام بندہ جو نہ سائنس کو سمجھتا ہے نہ جینیٹک انجینیئرنگ کی حقیقت و حدود کو اور نہ عالمی خفیہ تنظیمات کی رسائی و پذیرائی کو، وہ ہر بات پر ہی یقین کرنے کو تیار ہو جاتا ہے ۔ عوامی ذہن تو کیا کافی پڑھے لکھے لوگ بھی سازشی تھیوری پر بڑی آسانی سے یقین کر لیتے ہیں اور ان تھیوریز کو آگے بڑھانے میں اپنا کردار بھی ادا کرتے ہیں ۔
ہمیں نہ تو ان سازشی تھیوریوں سے کچھ لینا دینا ہے نہ سائنسی تحقیقات پر زیادہ گہرائی سے بات کرنا مقصود ہے ۔
مقصود ہے تو فقط اتنا کہ اس شور شرابے میں ایسی ایسی باتیں ہو رہی ہیں کہ جن سے غیر محسوس انداز میں اسلامی عقیدہءِ توحید کی حقانیت پر ضرب لگ رہی ہے اور عام سادہ لوح لوگ بھی ایسا سمجھ رہے ہیں کہ جیسے سائنسدان لیبارٹریز میں خود وائرس بنانے پر قادر ہو گئے ہیں اور جب چاہیں اور جس طرح کا چاہیں وائرس بنا کر لانچ کر سکتے ہیں اور انسانیت کو تگنی کا ناچ نچا سکتے ہیں ۔ اسی طرح یہودیوں اور ان سے منسلک خفیہ تنظیمات کی سازشوں پر لوگ اس قدر یقین کر لیتے ہیں کہ جیسے دنیا کے سب سفید و سیاہ کے مالک یہی لوگ ہو چکے ہیں اور اللہ تعالی کی قدرت کا عمل دخل دنیا میں بہت کم ہی باقی رہ گیا ہے ۔
اس پوسٹ میں ٹیکنیکل اور مشکل سائنسی گفتگو بھی ہو گی لیکن کوشش کی جائے گی کہ اسے آسان سے آسان پیرایہ میں بیان کیا جائے ۔ احباب سے اس تحریر کو دلچسپی سے پڑھنے کی اپیل ہے ۔
اس پیش آمدہ مسئلے کو صحیح طور پر سمجھنے کیلیے ہمیں پہلے وائرس، اس کے سائز اور ساخت کو سمجھنا ہو گا ۔ اور اس بات کو کہ لیبارٹری میں سائنسدان لیبارٹری میں کس حد تک وائرس یا کسی اور جاندار پر کام کر سکتے ہیں ۔
وائرس کیا ہوتا ہے؟
وائرس ایک لاطینی لفظ ہے جس کا معنی زہر ہے ۔ یہ آنکھ سے نظر نہ آنے والی انتہائی چھوٹی ایک ذرہ نما چیز ہوتی ہے جس میں کچھ خصوصیات جانداروں کی اور کچھ خصوصیات بے جان اشیاء کی پائی جاتی ہیں ۔ یہ خود حرکت نہیں کر سکتا نہ خود کسی پر منتقل ہو سکتا ہے ۔ اسے صرف انتہائی طاقتور الیٹرانک مائکروسکوپ سے ہی دیکھا جا سکتا ہے ۔ سائنسدان اس کو جاندار اور بے جان کی درمیانی مخلوق قرار دیتے ہیں (organisms at the edge of life) .
وائرس زندگی کی ہر شکل پر حملہ آور ہو کر اس میں انفیکشن پھیلا سکتے ہیں ۔ بیکٹریا، آرچیگونیا، کیڑے مکوڑے، جانور، پودے ہر ایک پر حملہ آور ہو کر انہیں نقصان پہنچا سکتے ہیں ۔
کوئی وائرس کسی جاندار کے جسم میں داخل ہو کر تب نقصان پہنچا سکتا ہے جب اس جاندار میں کوئی مخصوص سیل یا کیمیکل اس وائرس کو قبول کرتا ہو ورنہ وائرس اندر داخل ہو کر بھی کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا ۔
انسان نے اب تک پانچ ہزار قسم کے وائرسز کو تفصیلًا جان لیا ہے جبکہ اندازًا کروڑوں قسم کے وائرس جانوروں، پودوں اور فضا میں موجود ہیں ۔ جب سے زندگی وجود میں آئی ہے تب سے وائرس بھی موجود ہیں ۔
وائرس کا سائز:
انکھ سے نظر نہ آنے والی چیزوں کو ماپنے کیلیے سائنسدانوں نے انتہائی چھوٹے پیمانے بنائے ہیں ۔ انسان کا جسم کھربوں سیلز سے مل کر بنا ہوا ہے ۔ انسانی سیل کا اوسط سائز تقریبًا 100 مائیکرو میٹر ہوتا ہے ۔ ایک مائیکرو میٹر ایک میٹر کا دس لاکھواں حصہ ہوتا ہے ۔ پیمانے یا فٹ پر نظر آنے والی سب سے باریک دو لائنوں کا درمیانی فاصلہ ایک ملی میٹر ہوتا ہے ۔ سمجھ لیں ایک ملی میٹر کو بھی جب 1000 حصوں میں تقسیم کر دیا جائے تو اس کو ایک مائیکرو میٹر کہیں گے ۔ یعنی ایک ملی میٹر میں دس انسانی سیل سما سکتے ہیں ۔ جبکہ انسانی سیل کے درمیان میں موجود نیوکیلیس کا سائز 6 مائیکرو میٹر تک ہوتا ہے ۔ گویا نیوکلیس سیل کے سائز سے سولہ گنا چھوٹا ہوتا ہے ۔نیوکلیس میں وراثتی مادہ DNA کروموسومز کی شکل میں موجود ہوتا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی نیوکلیس میں ایک اور وراثتی مادہ RNA بھی موجود ہوتا ہے ۔ نیوکلیس کے باہر موجود مادہ اور مختلف عضویوں کو ملا کر سائٹو پلازم کہا جاتا ہے۔ سائٹو پلازم نیوکلیس سے 10 گنا سے 16 گنا تک زیادہ پھیلاؤ رکھتا ہے جس میں کئی قسم کے مزید اجسام موجود ہوتے ہیں مثلًا رائبو سومز، گالجی کمپلیکس، مائٹو کونڈریا، اینڈو پلازمک ریٹی کولم وغیرہ ۔
بیکٹریا کا سائز عام طور پر 0.2 سے 2 مائیکرو میٹر کے درمیان ہوتا ہے ۔ گویا ایک ملی میٹر میں 500 تا 2500 بیکٹیریا سما سکتے ہیں ۔ بیکٹریا کا سائز انسانی سیل سے 50 گنا سے 250 گنا چھوٹا ہوتا ہے ۔
وائرس کا سائز بیکٹریا سے بھی انتہائی چھوٹا ہوتا ہے ۔ اس کا سائز 20 نینو میٹر سے 400 نینو میٹر ہوتا ہے ۔ (نینو میٹر ایک میٹر کا ایک اربواں حصہ ہوتا ہے اور ملی میٹر کا دس لاکھواں حصہ) ۔ گویا ایک ملی میٹر میں دو ہزار سے لے کر پچاس ہزار تک وائرس سما سکتے ہیں ۔ وائرس انسانی سیل سے 200 گنا سے 5000گنا چھوٹا ہو سکتا ہے۔
وائرس کی ساخت :
وائرس کے باہر پروٹین کا بنا ہوا خول ہوتا ہے جس کے درمیان میں DNA یا RNA پڑا ہوتا ہے ۔ (دنیا میں پروٹین ہزاروں قسم کی موجود ہیں ، انسانی جسم کا گوشت، مسلز، بال، کان، ناک، آنکھ، لب، زبان سب مختلف قسم کی پروٹین کے بنے ہوتے ہیں ۔ ) DNA یا RNA ہی وہ مادہ ہے جو ہر جاندار میں پایا جاتا ہے اور جاندار ہونے کی علامت ہے ۔ یہی مادہ جانداروں کی وراثت کو آگے بڑھاتا ہے ۔ DNA/RNA کے آرڈر پر ہی پروٹین بنتے ہیں جن سے جاندار کا بیرونی ڈھانچہ تشکیل پاتا ہے ۔ ہر جاندار کا DNA/RNA دوسرے جاندار سے مختلف ہوتا ہے، اسی وجہ سے جانداروں کے جسم ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں اور خصوصیات بھی مختلف ہوتی ہیں ۔ DNA/RNA کے فرق کی وجہ سے ہی کچھ جاندار پودے اور درختوں کی شکل اختیار کرتے ہیں، کچھ کیڑے مکوڑے، کچھ بیکٹیریا، کچھ جانور چوپائے اور ایک صورت انسان قرار پاتی ہے ۔ انسانی DNA چار ارب کے قریب مالیکیولز. (نیوکلیوٹائڈز) سے بنا ہوتا ہے جو مل کر تیس ہزار جینز بناتے ہیں ۔ جس سے انسانی جسم میں تیس ہزار قسم کی پروٹین بنتی ہے ۔
کچھ وائرس میں وراثتی مادہ DNA ہوتا ہے اور کچھ میں RNA. جن کا مادہ DNA ہو وہ سیل کے نیوکلیس میں داخل ہو کر اسے انفیکٹ کر کے اپنی تعداد میں اضافہ کرتے ہیں لیکن جن کا وراثتی مادہ RNA ہو وہ سیل کے نیوکلیس کے باہر موجود حصے سائٹو پلازم میں اپنی افزائش کرتے ہیں ۔
موجودہ COVID-19 کرونا وائرس میں RNA بطور وراثتی مادہ ہے اور اس کا RNA تقریبًا 30000 نیوکلیوٹائڈز پر مشتمل ہے جس سے 15 جینز ترتیب پاتی ہیں اور یہ وائرس 15 قسم کی پروٹین بنا سکتا ہے جس سے اس کے جسم کا بیرونی خول ترتیب پاتا ہے ۔
اس وائرس کا RNA انسانی DNA سے سوا لاکھ گنا چھوٹا ہے ۔ موجودہ کرونا وائرس کے پروٹین کے خول کے باہر ایک چکنائی. (لپڈز) کی اضافی تہہ بھی ہے اور بیرونی خول پر ابھاروں یا کانٹوں کی شکل میں اضافی پروٹین بھی موجود ہے ۔ چونکہ پروٹینز 20 قسم کے امائنو ایسڈز سے مل کر بنی ہوتی ہیں لہذا COVID-19 کرونا وائرس کی پروٹین بھی امائنو ایسڈز سے مل کر ہی ترتیب پائی ہے ۔
اس کرونا وائرس کے بیرونی خول پر کانٹا نما پروٹین میں Spike پروٹین بھی شامل ہے جو 1160 تا 1400 امائنو ایسڈز پر مشتمل ہے ۔ یہ ایک بڑے سائز کی پروٹین ہے ۔ اس سپائک پروٹین کی دو قسمیں کرونا پر موجود ہیں ۔ ایک قسم کو ایس-1 (S1) یا N-terminal Domain کہا گیا ہے اور دوسری کو ایس-2 (S2) یا C-terminal Domain کا نام دیا گیا ہے ۔ اس سپائک پروٹین کے موجود ہونے نے ہی موجودہ کرونا وائرس کو تباہ کن بنا دیا ہے ۔ یہ پروٹین بھی صاف ظاہر ہے وائرس کے اندر موجود RNA کی مخصوص جینز کی وجہ سے ہی بنی ہے ۔اس کی وجوہات پر ہم آئندہ غور کریں گے ۔
وائرس کے سائز سے بھی چھوٹے ایسے ذرات موجود ہیں جو جانداروں پر حملہ آور ہو کر انہیں مختلف قسم کی بیماریوں میں مبتلا کرتے ہیں ۔ Viriod ایسے ذرات ہیں جو صرف RNA کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں پر مشتمل ہوتے ہیں اور ان کے ارد گرد نہ پروٹین کا کوئی خول ہوتا ہے نہ چکنائی کا ۔ ان میں سب سے بڑے دریافت شدہ Viroid کا RNA فقط 399 نیکلیوٹائڈز پر مشتمل ہے اور سب سے چھوٹا صرف 246 نیکلیوٹائڈز سے بنا ہوا ہے ۔
قسط دوم میں ہم اللہ تعالی کی شانِ تخلیق اور سائنسدانوں کی جینیٹک انجینیئرنگ کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو کریں گے ۔ ان شاء اللہ
پروفیسر انجینیئر
سید محمد ہارون بخاری
گجرات
Kindly like and share it plz
Post a Comment
Post a Comment
Thanks and like to share it