قسط دوم : کیا کرونا وائرس لیبارٹری کی انسانی تخلیق ہے یا اللہ کی تخلیق

قسط دوم : کیا کرونا وائرس لیبارٹری کی انسانی تخلیق ہے یا اللہ کی تخلیق ہے؟ کیا انسان کسی چیز کو تخلیق کرنے پر قادر ہے؟

 اگر نہیں تو یہ کرونا وائرس کی انسانی بناوٹ کا شور کیسا ہے؟ ابداع (novelty) ، ابداء (commencement) ، خلق (creation) ، جعل (making)، صنعت (manufacturing) اور ایجاد (innovation) میں فرق : جینیٹک انجیئرنگ کی کامیابی کی حدود اور کرونا وائرس کی کیمیائی ساخت پر بحث : یہود، امریکہ، چین، عالمی طاقتوں یا ایلومیناتی/فری میسن کی طرف سے سازشی تھیوری کی حقیقت پر غور: پہلی قسط میں ہم نے وائرس کی ساخت اور سائز کے حوالے سے بنیادی گفتگو کی تھی ۔ چونکہ کرونا وائرس کے حوالے سے ہماری یہ گفتگو جاری تھی کہ آیا یہ وائرس انسانی تخلیق ہے یا خدائی؟ لہذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پہلے ہم DNA یا RNA کے ذریعہ سیل میں پروٹین کی بناوٹ کے طریق کار کو سمجھ لیں ۔ سیل میں پروٹین کا بننا : سیل کے نیوکلیس میں DNA وراثتی مادہ ہے جو چار قسم کے نیوکلیوٹائڈ سے مل کر بنا ہوتا ہے جن کو گوانین( G)، سائٹو سین (C)، ایڈینین(A) اور تھائی مین(T) کا نام دیا گیا ہے ۔ انسانی DNA اس طرح کے چار ارب نیوکلیوٹائڈ سے مل کر بنا ہوتا ہے ۔ نیوکلیوٹائڈز گروپس یا ٹکڑوں کی صورت میں ترتیب پائے ہوتے ہیں جن میں ہر گروپ یا ٹکڑے کو جین کہا جاتا ہے ۔ ہر جین کے DNA پر جڑنے کے مقام پر خاص قسم کے مادے ہوتے ہیں جو ان کو جوڑنے کا کام کرتے ہیں ۔ یہ پایا گیا ہے کہ ہر جین کے جڑنے کا مادہ مختلف قسم کا ہوتا ہے اور اگر اس جین کو DNA سے علیحدہ کرنا مقصود ہو تو اس مخصوص مادے کو ایک خصوصی طریقے سے کاٹا جا سکتا ہے ۔ ہر جین میں کسی خاص پروٹین کیلیے خفیہ ہدایات یا کوڈ ہوتا ہے ۔ یہ ہدایت اس کے نیوکلیوٹائڈز کی مخصوص ترتیب کی وجہ سے ہوتی ہے ۔ اگر کسی جین کی ترتیب AGGTCAAGTC ہے اور دوسرے کی GGTCAAGTA ہے تو ترتیب کے اس معمولی فرق سے اس کی کوڈنگ تبدیل ہو جائے گی اور علیحدہ قسم کی پروٹین بنائی جائے گی ۔ اس ترتیب سے یہ کوڈنگ اور خفیہ ہدایات جینز میں کیوں سما جاتی ہیں انسان بمعہ سائنس اس کو سمجھنے سے قاصر ہے ۔ ایک جین میں اتنی معلومات سمائی ہوتی ہیں کہ جن کو اگر کاغذ پر لکھا جائے تو دس کروڑ صفحات کی ضرورت پڑے گی ۔ اگلا قدم یہ ہوتا ہے کہ کب کونسی پروٹین بنانی ہے اور کتنی مقدار میں اور اس کو جسم کے کس حصے میں لگانا ہے ، یہ فیصلہ بھی DNA خود کرتا ہے اس میں موجود ہدایات کی روشنی میں ۔ یہ ہدایات کی اتنی بڑی دنیا DNA کے خوردبینی مالیکیول کے ذرات کے جینز میں کس نے ریکارڈ کر دی ہے یہ ایک حیرت کی عجیب دنیا ہے ۔ جب DNA کسی پروٹین کے بنانے کا فیصلہ کرتا ہے تو اپنی مخصوص جین کو ایکٹِو کر دیتا ہے ۔ وہ جین نیوکلیس میں موجود میسنجر آر۔این۔اے کو طلب کرتی ہے ۔ RNA جین کی ہدایات کے مطابق خود کو ترتیب دیتا ہے اور اس ہدایت یا پیغام کو اپنے اندر ریکارڈ کر لیتا ہے ۔ پھر یہ RNA نیوکلیس سے باہر نکل کر سائٹو پلازم میں آ جاتا ہے ۔ سائٹو پلازم میں 20 قسم کے امائنو ایسڈ ایک بہت بڑی تعداد میں پہلے سے موجود ہوتے ہیں اور بے ترتیب انداز میں معلق بھکری حالت میں حرکت پذیر ہوتے ہیں ۔ RNA سائٹو پلازم میں آکر ایک عضویے رائبوسوم سے منسلک ہو جاتا ہے ۔ رائبو سوم RNA پر موجود DNA جین کی ہدایات کے مطابق بکھرے ہوئے امائنو ایسڈز کو ایک ترتیب سے جوڑ کر مخصوص پروٹین بنا دیتا ہے ۔ تیس ہزار قسم کی پروٹین کے بننے کا یہ عمل ہر وقت جاری رہتا ہے ۔ پھر DNA کا کام صرف پروٹین بنانا ہی نہیں بلکہ فیصلہ جات کرنا بھی ہے کہ کب کس عضویے نے کیا عمل سر انجام دینا ہے اور ایمرجینسی صورتحال میں سیل نے کس طرح کا رویہ اپنانا ہے ۔ ایک سیل دوسرے سیلز سے اپنا رشتہ کس طرح نبھانا اور برقرار رکھنا ہے اور جاندار کے مکمل جسم میں اپنا مخصوص کردار باہمی تعاون سے کس طرح سر انجام دینا ہے ۔ اس طرح ہر ہر جین اپنی اپنی پروٹین بنواتا رہتا ہے ۔ سیل کے اندر ایک علیحدہ دنیا آباد ہوتی ہے ۔ سیل کا DNA اس کا دماغ ہوتا ہے ۔ کئی قسم کے عضویے فیکٹریوں کی طرح کام کرتے ہیں جن کیلیے سائٹو پلازم میں کئی کارکن موجود ہوتے ہیں ۔ سیل کبھی نہیں سوتا نہ آرام کرتا ۔ اس میں ایک ہنگام ہر وقت برپا ہوتا ہے اور ہر وقت کئی قسم کی توڑ پھوڑ اور بناوٹ کا عمل جاری رہتا ہے ۔ جینیٹک انجینیئرنگ : اب انسان اس قابل ہو گیا ہے کہ وہ DNA سے جینز کو علیحدہ کر کے اس میں نئے جینز کو ٹرانسپلانٹ کر سکتا ہے ۔ اس سبجیکٹ کو جینیٹک انجینیئرنگ کہا جاتا ہے ۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا تھا کہ ہر جین کا ایک جوڑ ہوتا ہے جو مخصوص کیمیکل مادہ سے جڑا ہوتا ہے ۔ انسان نے پودوں اور جانوروں کے سیلز کے اندر سے ہی ایسے انزائمز دریافت کر لیے ہیں جو کہ جین کے جوڑوں کو کھول سکتے ہیں ۔ ایسے اینزائمز کو "ریسٹرکشن انزائمز" (restriction enzymes ) کہا جاتا ہے ۔ انسان نے اب تک 3000 رسٹرکشن اینزائم دریافت کیے ہیں جن میں 600 کمرشل طور پر خرید و فروخت کیلیے عام دستیاب ہیں ۔ ہر رسٹرکشن اینزائم مخصوص جین کے جوڑ کو کھول سکتا ہے ۔ اس لئے ہر جین کیلیے علیحدہ علیحدہ رسٹرکشن اینزائم کی ضرورت ہوتی ہے ۔ یہ ایک طویل محنت طلب ریسرچ ہے جس میں سائنسدان مصروف رہتے ہیں کہ کس جین کو کھولنے کیلیے کونسا انزائم چاہیے ۔ اسی طرح جین کو جوڑنے کیلیے علیحدہ قسم کے اینزائمز درکار ہوتے ہیں، ان جوڑنے والے اینزئمز کو "ڈی۔این۔اے لاگیز" (DNA Ligaese) کہا جاتا ہے ۔ یاد رہے کہ اینزائمز بھی پروٹین ہی ہوتی ہیں جن کو سیلز ہی بناتے ہیں ۔ ابھی تک چند جینز کے عمل کو ہی سمجھا جا سکا ہے ۔ اکثر جینز کے عمل کو سمجھنا اب بھی انسان کی پہنچ سے بہت دور ہے ۔ انسان کو اب تک جتنی سمجھ آئی ہے اس کو وہ جینز کی تبدیلی کیلیے استعمال کر رہا ہے ۔ ایک جاندار سے جین علیحدہ کر کے دوسرے جاندار کے DNA میں چسپاں کیا جا رہا ہے ۔ چسپاں کرنے کیلیے DNA Ligase کا استعمال کیا جاتا ہے ۔ جب کسی جاندار میں نئی جین ڈال دی جاتی ہے تو وہ جین وہاں بھی اپنا اظہار کرتی ہے اور اپنی مخصوص پروٹین بنانا شروع کر دیتی ہے ۔ انسان نے اس ٹیکنیک سے بہت فائدہ اٹھایا ہے اور انسان کیلیے بہت ضروری اشیاء کو پیدا کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے ۔ اس کی ایک اہم مثال انسانی انسولین کا بیکٹریا سے حصول ہے ۔ انسان کا وہ جین جو انسولین پروٹین بنانے کا مخصوص کوڈ رکھتا ہے اس کو انسانی DNA سے علیحدہ کر لیا جاتا ہے اور اس جین کو بیکٹیریا کے ایک جین کو کاٹ کر اس کی جگہ رکھ دیا جاتا ہے ۔ جب یہ جین بیکٹیریا میں پہنچتا ہے تو اپنا اظہار کرتا ہے اور بیکٹیریا کے جسم میں انسولین بننا شروع ہو جاتی ہے ۔ چونکہ ایک بیکٹیریا ہر 20 منٹ بعد تقسیم ہو کر نیا بیکٹیریا بنا دیتا ہے لہذا کچھ ہی گھنٹوں بعد انسولین جین والے بیکٹیریا کی تعداد کروڑوں اربوں تک پہنچ جاتی ہے اور ہر ایک میں انسولین بن رہی ہوتی ہے، اس انسولین پروٹین کو پھر صاف کر کے پیک کر کے شوگر کے مریضوں کو فروخت کر دیا جاتا ہے ۔ جینیٹک انجینیئرنگ سے انسان نے جانوروں، سمندری مخلوق، پودوں، درختوں اور خوردبینی جانداروں نئی سے نئی خصوصیات والی نئی قسمیں بنا ڈالی ہیں ۔ اس میں ایک مثال GloFish کی ہے ۔ یہ اندھیرے میں چمکنے والی مچھلی ہے ۔ جیلی فش ایک سمندری جاندار ہے جو اندھیرے میں چمکتا ہے اس کا چمکنے والا مادہ پیدا کرنے والا جین نکال کر عام مچھلی کے جین میں سیٹ کر دیا تو عام مچھلی میں بھی انھیرے میں چمکنے کی صلاحیت پیدا ہو گئی ۔ اس کی ایک مثال Golden Rice یعنی سنہرے چاول بھی ہیں جن میں وٹامن اے کی مقدار عام قدرتی چاولوں کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہوتی ہے اور رنگ بھی چمکدار سنہرا ہوتا ہے ۔ 2011 میں چینی سائنسدانوں نے گائے کے دودھ پیدا کرنے والے جین میں عورت کا دودھ پید کرنے والا جین ٹرانسپلانٹ کر کے ایسی گائے ہیدا کی جس کے دودھ میں انسانی دودھ والی خصوصیات پائی جاتی ہیں ۔ ایک خاص بات یہ ہے کہ اگر کسی جاندار میں جینیٹک انجینیئرنگ کی گئی ہو اور وہ نسل در نسل آگے منتقل بھی ہو چکی ہو تو تب بھی اس جنیٹک انجینیئرنگ کا پتہ چلایا جا سکتا ہے ۔ GMO یعنی Genetically Modified Organisms (جینیاتی طور پر تبدیل شدہ جاندار) کو چیک کرنے کیلیے سائنسدانوں نے کم از کم پانچ قسم کے ٹیسٹ ترتیب دیئے ہیں اور ان کو مزید ترقی دی جا رہی ہے جس سے جینیاتی طور پر تبدیل شدہ جاندار کا سراغ لگایا جا سکتا ہے ۔ ان ٹیسٹس میں *PCR (Polimerase Chain Reaction) * Event-Specific Detection * Construction-Specific Detection * Detecting Unknown GMO * Improved PCR Based Detection * Near Infrared Flourescene (NIR) شامل ہیں ۔ ان ٹیسٹس کے ذریعہ جینیاتی تبدیلیوں کا پتہ چلانا آسان ہو گیا ہے ۔ کلوننگ : اسی جینیٹنگ انجینیئرنگ کی ایک شاخ کلوننگ بھی ہے جس میں ایک جاندار کی ہو بہو کاہی پیدا کی جاتی ہے ۔ قدرتی طور پر تو پودوں میں اور بعض جانوروں میں کلوننگ کا عمل لاکھوں سال سے جاری ہے لیکن انسان نے ان جانداروں کی کلوننگ میں بھی کامیابی حاصل کی ہے جس میں قدرتی طور پر کلوننگ کا عمل نہیں پایا جاتا تھا ۔ کلوننگ کے عمل میں ایک بالغ جاندار کے جسم یعنی گوشت کا کوئی سیل جو کہ غیر جنسی ہوتا ہے (somatic cell) لیا جاتا ہے اور اس سے نیوکلیس نکال لیا جاتا ہے ۔ کسی دوسرے اسی قسم کے جاندار کا ایگ سیل لے کر اس کا بھی نیوکلیس نکال کر اس میں غیر جنسی somatic cell کا نیوکلیس ڈال دیا جاتا ہے ۔ پھر الیٹرک شاک کے ذریعہ اس نئے بنائے گئے سیل کو تقسیم در تقسیم پر مجبور کیا جاتا ہے ۔ جب سلیز کی تقسیم ایک خاص تعداد کو پہنچ کر blastocyst بن جائے تو اسے کسی مادہ جاندار کے رحم میں رکھ دیا جاتا ہے جہاں سے مدت پوری ہونے پر جینیٹکلی تبدیل شدہ جاندار پیدا ہو جاتا ہے جو ہو بہو somatic cells والے جاندار کی کاپی ہوتا ہے ۔ اس طریقہ سے 5 جولائی 1996 کو "ڈولی بھیڑ" پیدا کی گئی تھی جس کا اعلان 1997 میں کیا گیا تھا اور بہت مشہور ہوئی تھی ۔ ڈولی سائنسدانوں کی 277 ناکام کوششوں کے بعد پیدا کی جا سکی تھی ۔ سائنسدان اب انسانی کلون کی کوششوں میں مصروف ہیں لیکن ابھی ان پر اخلاقی اور قانونی پابندیوں نے ایک پہرہ بٹھایا ہوا ہے لیکن کیا خبر وہ خفیہ طور پر کن کن تجربات میں مصروف ہوں ۔ خدا جانے ۔ اس قسط میں ہم نے انسان کی بائیولوجیکل سائنس میں ترقی کا کچھ حال بیان کیا ہے ۔ ابھی مستقبل میں انسان معلوم نہیں کہاں سے کہاں تک جا پہنچتا ہے اور کیا کیا نئے تجربات کرتا ہے ۔ ۔۔ لیکن کیا ان سب ترقیوں سے وہ درجہ تخلیق تک پہنچ گیا ہے یا پہنچ سکتا ہے؟ اس پر گفتگو ہم آئندہ قسط سوم میں کریں گے ۔ ان شاء اللہ پروفیسر انجینیئر سید محمد ہارون بخاری گجرات Kindly like and share it plz

Post a Comment

Thanks and like to share it