بند کرو یہ ڈرامہ بازی۔
مسلہ نمک کا نہیں ہے۔
مسئلہ فوڈ پروسیسنگ نہ ہونے کا ہے۔ ہم ہر سال کروڑوں کی کجھور درآمد کرتے ہیں۔ ہماری اپنی اربوں روپے کی کھجور محفوظ نہ ہونے کی وجہ ضائع ہو جاتی ہے۔
سمندر سے پکڑی جانے والے تقریبا آدھی مچلی خراب ہوتی ہے۔ یہی حال ہماری سبزی اور پھل کا ہے۔
ہم زراعت میں دنیا سے کم از کم پچاس سال پیچھے ہیں۔ اپنی زمین کی صلاحیت کا صرف بیس فیصدی فصل حاصل کر رہے ہیں۔ زرعی آمدن کا بڑا حصہ مڈل مین ہڑپ کر جاتا ہے۔ بچارے کسان کے حصے میں فاقے آتے ہیں۔ سیزن میں دس روپے کلو ٹماٹر،پیاز، آلو اور دیگر سبزیاں دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔
یہ پیسے تو لوڈنگ ، ان لوڈنگ ، گاڑی کے کرائے اور آڑتی کے کمیشن میں بھی پورے نہیں ہوتے، کسان تو نقصان میں گیا۔
جتنی ہماری کل برآمدات ہیں، اس سے زیادہ تو اسرائیل اور نیدر لینڈ صرف پھولوں کی ایکسپورٹ سے کماتے ہیں۔
اگر خام مال پر دکھ ہے تو صرف نمک کیوں؟ ہم اربوں کا سنگ مرمر کوڑیوں کے مول بیجتے ہیں۔ ہمارا سونا، تانبہ اور دوسری دھاتیں خام حالت میں چائینہ کو جا رہی ہیں۔ اُس کا ماتم کون کرے گا؟
ہم ایٹم بم بنا رہے ہیں، شاہین، غوری اور بابر جیسے میزائل، جے ایف تھنڈر جیسے جدید جہاز بھی۔ لیکن بنیادی استعمال کی چیزیں چائنہ سے درامد کرتے ہیں۔
مہم چلانی ہے تو ترجیہات کے درست تعین کی چلائیے۔ ورنہ ان مگرمچھ کی آنسوں کی کوئی اوقات نہیں۔
Post a Comment
Post a Comment
Thanks and like to share it